بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دشمن میڈیا کے ذریعے جھوٹ پر قائل کر سکتا ہے تو ہم سچ پر کیوں نہیں قائل کر سکتے ؟
شاعر اپنے معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے اسی طرح سے لکھاری ، مصنف اور آرٹسٹ بھی معاشرے کے افکار تجربات ، نظریات کا اظہار اور ترجمانی کرتے ہیں ۔پہلے یہ رواج تھا کہ شخصیات اپنی کتابیں لکھ کر اپنے افکار اپنے تجربات اپنا علم فہم کتابت کے ذریعے سے منتقل کرتے تھے اور ان کتابوں میں اعلیٰ کتاب کو شاہکار سمجھا جاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔اسی طرح سے آرٹ بھی اظہار رائے، اظہار علم اور نظریات کو آرٹ کی صورت میں پیش کرتے تھے اور سب سے بہترین آرٹ کو سراہا جاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ لیکن!
اسی طرح جب دنیا ترقی کرتی گئی خصوصیا ٹیکنالوجی کے میدان میں، تو اظہار کے مختلف فارمیٹس Formatsسامنے آنے لگے،ویڈیو کی صورت میں تصویر کی صورت میں آواز، صوت کی صورت میں ، مثلا نغمہ پہلے بھی گایا جاتا تھا آرٹ تصویر پہلے بھی بنائی جاتی تھی لیکن اب اس کو ڈیجیٹل Form میں تبدیل کر دیا گیا ہے تصویری آرٹ کو اگر دیکھیں تو آج ہم اس کو NFT کی صورت میں انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں ۔
اسی طرح سے اگر آپ کے پاس کچھ ہے علم ہے تجربہ ہے یا کچھ اور جو آپ اپنے معاشرے کی خدمت کے لیے پیش کر سکتے ہیں آج کے دور میں زیادہ موثر ذریعہ Digital Medium ہے اس میں ویڈیو شامل ہے تصویر ، آڈیو اور باقی فارمیٹس ۔مثلا اگر آپ ایک معلم ہیں یا عالم دین ہیں یا کسی اور شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ نے جو علم کتابوں سے حاصل کیا ہے اس کو آپ ویڈیو کی شکل میں پیش کریں کیونکہ آج Data کا دور ہے اور جن نظریات کا ڈیٹا زیادہ ہوگا اسی نظریات کے غلبے کے زیادہ یقینی امکانات ہیں اور یہ اس زمانہ میں جنگ Data کی جنگ ہے ۔
آج اگر ہم دیکھیں کہ مغربی نظریات آج ہمارے سامنے میڈیا پر ویڈیو ، فلم ، پروگرامز ، ٹی وی شوز، سوشل میڈیا کے ذریعے سے پیش کیے جاتے ہیں اور اس کے اثرات اتنے ہیں کہ مسلمان معاشرے بھی انہیں کے نظریات و افکار لاشعوری طور پر ان کے مطابق زندگی گزار رہےہیں ۔
کتاب اور آرٹ کی اہمیت آج بھی ہے لیکن جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق اس کی زیادہ اہمیت اس کے Digitalصورت میں ہونے سے ہے ۔کتاب کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا لیکن ابھی Digital Age میں رجحان تبدیل ہو گیا ہے لوگ میڈیا کو زیادہ استعمال کرتے ہیں اور میڈیا پر جنہوں نے جو مواد ڈالا ہوگا لوگ وہی دیکھیں گے ۔
کتاب ہر کوئی نہیں لکھ سکتا ایک دھنگ کر دینے والا آرٹ ہر کوئی نہیں بنا سکتا لیکن آج کے دور میں ویڈیو ہر کوئی بنا سکتا ہے سوشل میڈیا ہر کوئی استعمال کر سکتا ہے تو جب لوگ فحاشی کے لیے اور دیگر مقاصد کے لیے ان Formats کو استعمال کر رہے ہیں تو ہم حق کو پھیلانے کے لیے اس کا استعمال کیوں نہیں کر سکتے ؟ المیہ ہوا یہ ہے کہ یہ میدان سب کے لیے تھا لیکن دوسروں نے اس سے بھر پور استفادہ کیا ہے اور ہم اس میدان میں آنے سے ڈرتے ہیں اور دوسروں نے جو اوٹ پٹانگ مواد بنایا ہوتا ہے صرف اسے دیکھ کر ان کے ہی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں ۔
لہذا آج ہمیں ان سکلز کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سے ایک پیغام کو،ہدایت کو احسن طریقے سے پیش کر سکتے ہیں اور لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں ۔دشمن اگر ان Tools کے ذڑیعے سے میڈیا کے ذریعے سے لوگوں کو جھوٹ پر قائل کر سکتا ہے تو ہم سچ پر لوگوں کو کیوں قائل نہیں کر سکتے؟ آج کے دور میں میدان اس کا ہے جس نے اپنے علم کو، نظریات و افکار کو اپنے تجربات کو ڈیجیٹل فارم میں تبدیل کر کے لوگوں کے لیے پیش کیا ہے اور اگر یہ قوانین کے مطابق ہو تو یہ دنیا میں شاہکار مانا جائے گا ۔ اور معاشرہ میں تبدیلی کا باعث بنے گا اور یہ شاہکار ویڈیو ہو سکتی ہے آڈیو ہو سکتی ، آرٹ ہو سکتی ہو تصویر ہو سکتی ہے کوئی تحریر ہو سکتی ہے ۔